اب ہم نے بھی کسو سے آنکھیں لڑائیاں ہیں
ٹک سن کہ سو برس کی ناموس خامشی کھو
دو چار دل کی باتیں اب منھ پر آئیاں ہیں
ہم وے ہیں خوں گرفتہ ظالم جنھوں نے تیری
ابرو کی جنبش اوپر تلواریں کھائیاں ہیں
آئینہ ہو کہ صورت معنی سے ہے لبالب
راز نہان حق میں کیا خود نمائیاں ہیں
کیا چہرہ تجھ سے ہو گا اے آفتاب طلعت
منھ چاند کا جو ہم نے دیکھا تو جھائیاں ہیں
کعبے میں میرؔ ہم پر یا سرگراں ہے زاہد
یا بتکدے میں ہم نے دھولیں لگائیاں ہیں