راہیں رکے پر اس سے ملاقات ہو تو ہو

راہیں رکے پر اس سے ملاقات ہو تو ہو
خاموش ان لبوں سے کوئی بات ہو تو ہو
رنج و عنا کہ دشمن جان عزیز ہیں
ان سے بچاؤ اس کی عنایات ہو تو ہو
نومید وصل دل نہیں شب ہائے ہجر میں
ان راتوں ہی میں ملنے کی بھی بات ہو تو ہو
امید ہے کہ اس سے قیامت کو پھر ملوں
حسن عمل کی واں بھی مکافات ہو تو ہو
تخفیفے شملے پیرہن و کنگھی اور کلاہ
شیخوں کی گاہ ان میں کرامات ہو تو ہو
ساقی کو چشم مست سے اودھر ہی دیکھنا
مسجد ہو یا کہ کعبہ خرابات ہو تو ہو
منکر نہیں ہے کوئی سیادت کا میرؔ کی
ذات مقدس ان کی یہی ذات ہو تو ہو
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *