ساتھ ان کے چل تماشا کر لے جس کو چاؤ ہو
قد جو خم پیری سے ہو تو سرکا دھننا ہیچ ہے
ہو چکا ہونا جو کچھ تھا اب عبث پچھتاؤ ہو
خون کے سیلاب میں ڈوبے ہوؤں کا کیا شمار
ٹک بہے وہ جدول شمشیر تو ستھراؤ ہو
تھی وفا و مہر تو بابت دیار عشق کی
دیکھیں شہر حسن میں اس جنس کا کیا بھاؤ ہو
گریۂ خونیں سے ہیں رخسار میرے لعل تر
دیدۂ خوں بار یوں ہیں جیسے منھ پر گھاؤ ہو