جی میں ہم نے یہ کیا ہے اب مقرر ہو سو ہو
قطرہ قطرہ اشک باری تو کجا پیش سحاب
ایک دن تو ٹوٹ پڑ اے دیدۂ تر ہو سو ہو
بند میں ناز و نعم ہی کے رہے کیونکر فقیر
یہ فضولی ہے فقیری میں میسر ہو سو ہو
آ کے کوچے سے ترے جاتا ہوں کب جوں ابر شب
تیر باراں ہو کہ برسے تیغ یک سر ہو سو ہو
صاحبی کیسی جو تم کو بھی کوئی تم سا ملا
پھر تو خواری بے وقاری بندہ پرور ہو سو ہو
کب تلک فریاد کرتے یوں پھریں اب قصد ہے
داد لیجے اپنی اس ظالم سے اڑ کر ہو سو ہو
بال تیرے سر کے آگے تو جیوں کے ہیں وبال
سر منڈا کر ہم بھی ہوتے ہیں قلندر ہو سو ہو
سختیاں دیکھیں تو ہم سے چند کھنچواتا ہے عشق
دل کو ہم نے بھی کیا ہے اب تو پتھر ہو سو ہو
کہتے ہیں ٹھہرا ہے تیرا اور غیروں کا بگاڑ
ہیں شریک اے میرؔ ہم بھی تیرے بہتر ہو سو ہو