رنج کی اس کے جو خبر گذرے

رنج کی اس کے جو خبر گذرے
رفتہ وارفتہ اس کا مر گذرے
ایک پل بھی نہ اس سے آنسو پنچھے
روتے مجھ کو پہر پہر گذرے
جوئے خوں آنکھوں سے بہی شاید
خون سے میرے بھی وے در گذرے
راہ جاناں سے ہے گذر مشکل
جان ہی سے کوئی مگر گذرے
مارے غیروں کو یا مرے عاشق
کچھ نہ کچھ چاہیے کہ کر گذرے
غنچہ ہو شرم سے ان آنکھوں کی
گل نرگس اگر نظر گذرے
سر کا جانا ہی ہر قدم ہے میرؔ
کیا کوئی اس کی راہ پر گذرے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *