نہ ایسا کھلا گل نزاکت سے اب تک
لبالب ہے وہ حسن معنی سے سارا
نہ دیکھا کوئی ایسی صورت سے اب تک
سلیماں ؑ سکندر کہ شاہان دیگر
نہ رونق گئی کس کی دولت سے اب تک
کرم کیا صفت ہے نہ ہوں گو کریماں
سخن کرتے ہیں ان کی ہمت سے اب تک
سبب مرگ فرہاد کا ہو گیا تھا
نگوں ہے سرتیشہ خجلت سے اب تک
ہلا تو بھی لب کو کہ عیسیٰ ؑکے دم کی
چلی جائے ہے بات مدت سے اب تک
عقیق لب اس کے کبھو دیکھے تھے میں
بھرا ہے دہن آب حسرت سے اب تک
گئی عمر ساری مجھے عجز کرتے
نہ مانی کوئی ان نے منت سے اب تک
نہ ہو گو جنوں میرؔ جی کو پر ان کی
طبیعت ہے آشفتہ وحشت سے اب تک