کہ بل دے باندھتے ہیں پیچ پگڑی کے بھی بالوں سے
تجھے نسبت جو دیتے ہیں شرار و برق و شعلے سے
تسلی کرتے ہیں ناچار شاعر ان مثالوں سے
بلا کا شکر کر اے دل کہ اب معلوم ہوتی ہے
حقیقت عافیت کی اس گلی کے رہنے والوں سے
نہیں اے ہم نفس اب جی میں طاقت دوری گل کی
جگر ٹکڑے ہوا جاتا ہے آخر شب کے نالوں سے
نہیں خالی اثر سے تصفیہ دل کا محبت میں
کہ آئینے کو ربط خاص ہے صاحب جمالوں سے
کہاں یہ قامت دلکش کہاں پاکیزگی ایسی
ملے ہیں ہم بہت گلزار کے نازک نہالوں سے
ہدف اس کا ہوئے مدت ہوئی سینے کو پر اب تک
گتھا نکلے ہے لخت دل مرا تیروں کے بھالوں سے
ہوا پیرانہ سر عاشق ہو زاہد مضحکہ سب کا
کہن سالی میں ملتا ہے کوئی بھی خورد سالوں سے
رگ گل کوئی کہتا ہے کوئی اے میرؔ مو اس کو
کمر اس شوخ کی بندھتی نہیں ان خوش خیالوں سے