رہتا ہے پیش دیدۂ تر آہ کا سبھاؤ

رہتا ہے پیش دیدۂ تر آہ کا سبھاؤ
جیسے مصاحب ابر کی ہوتی ہے کوئی باؤ
برسے گی برف عرصۂ محشر میں دشت دشت
گر میری سرد آہوں کا واں ہو گیا جماؤ
حاصل کوئی امید ہوئی ہو تو میں کہوں
خوں ہی ہوا کیے ہیں مرے دل میں سارے چاؤ
آنکھوں کے آگے رونے سے میرے محیط ہے
ابروں سے جا کہے کوئی پانی پیو تو آؤ
رہتی تھی اشک خونیں میں ڈوبی سب آستیں
اس چشم بحر خوں کے کبھو دیکھے ہیں چڑھاؤ
اظہار درد اگرچہ بہت بے نمک ہے پر
ٹک بیٹھو تو دکھاویں تمھیں چھاتیوں کے گھاؤ
آ عاشقوں کی آنکھوں میں ٹکائے بہ دل قریب
ان منظروں سے بھی ہے بہت دور تک دکھاؤ
صحبت جو اس سے رہتی ہے کیا نقل کریے ہائے
جب آ گئے ہیں ہم تو کہا ان نے یاں سے جاؤ
صد چاک اپنے دل سے تو بگڑا ہی کی وہ زلف
افسوں کیا ہے شانے نے جو اس سے ہے بناؤ
اس ہی زمیں میں میرؔ غزل اور ایک کہہ
گو خوش نہ آوے سامعوں کو بات کا بڑھاؤ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *