کیا فکر کروں میں کہ کسو ڈھب ہو ملاقات
نے بخت کی یاری ہے نہ کچھ جذب ہے کامل
وہ آپھی ملے تو ملے پھر جب ہو ملاقات
دوری میں کروں نالہ و فریاد کہاں تک
یک بار تو اس شوخ سے یارب ہو ملاقات
جاتی ہے غشی بھی کبھو آتے ہیں بخود بھی
کچھ لطف اٹھے بارے اگر اب ہو ملاقات
وحشت ہے بہت میرؔ کو مل آیئے چل کر
کیا جانیے پھر یاں سے گئے کب ہو ملاقات