حال رکھا تھا کچھ بھی ہم نے عشق نے آخر مار رکھا
میلان اس کا تھا کاہے کو جانب الفت کیشوں کے
اپنی طرف سے ہم نے اب تک اس ظالم سے پیار رکھا
عشق بھی ہم میں ہائے تصرف کیسے کیسے کرتا ہے
دل کو چاک جگر کو زخمی آنکھوں کو خونبار رکھا
کیا پوچھو ہودیں کے اکابر فاضل کامل صابر رنج
عزت والے کیا لوگوں کو گلیوں میں ان نے خوار رکھا
کام اس سے اک طور پہ لیتے بے طور اس کو ہونے نہ دیتے
حیف ہے میرؔ سپہر دوں نے ہم سے اس کو نہ یار رکھا