زانو پہ سر ہے اکثر مت فکر اس قدر کر

زانو پہ سر ہے اکثر مت فکر اس قدر کر
دل کوئی لے گیا ہے تو میرؔ ٹک جگر کر
خورشید و ماہ دونوں آخر نہ دل سے نکلے
آنکھوں میں پھر نہ آئے جی سے مرے اتر کر
یوسف عزیز دلہا جا مصر میں ہوا تھا
ذلت جو ہو وطن میں تو کوئی دن سفر کر
اے ہمنشیں غشی ہے میں ہوش میں نہیں ہوں
مجھ کو مری زبانی سو بار اب خبر کر
کیا حال زار عاشق کریے بیاں نہ پوچھو
کرتا ہے بات کوئی دل کی تو چشم تر کر
دیتے نہیں ہیں سونے ٹک آہ و نالے اس کے
یارب شب جدائی عاشق کی بھی سحر کر
اتنا ہی منھ چھپایا شوخ اس کے محرموں نے
جو بچھ گئی ہیں زلفیں اس چہرے پر بکھر کر
کیا پھیر پھیر گردن باتیں کرے ہے سب میں
جاتے ہیں غش کیے ہم مشتاق منھ ادھر کر
بن دیکھے تیرے میں تو بیمار ہو گیا ہوں
حال تبہ میں میرے تو بھی تو ٹک نظر کر
رخنے کیے جو تو نے پتھر کی سل میں تو کیا
اے آہ اس صنم کے دل میں بھی ٹک اثر کر
مارے سے غل کیے سے جاتا نہیں ہے ہرگز
نکلے گا اس گلی سے شاید کہ میرؔ مر کر
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *