زلف ہی درہم نہیں ابرو بھی پرخم اور ہے

زلف ہی درہم نہیں ابرو بھی پرخم اور ہے
یاں تلف ہوتا ہے عالم واں سو عالم اور ہے
پیٹ لینا سر لیے دل کے شروع عشق تھا
سینہ کوبی متصل ہے اب یہ ماتم اور ہے
جوں کف دریا کو دریا سے ہے نسبت دور کی
ابر بھی ووں اور کچھ ہے دیدۂ نم اور ہے
رہتے رہتے منتظر آنکھوں میں جی آیا ندان
دم غنیمت جان اب مہلت کوئی دم اور ہے
جی تو جانے کا ہمیں اندوہ ہی ہے لیک میرؔ
حشر کو اٹھنا پڑے گا پھر یہ اک غم اور ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *