زمانے نے دشمن کیا یار کو

زمانے نے دشمن کیا یار کو
سلایا مرے خوں میں تلوار کو
کھلی رہتی ہے چشم آئینہ ساں
کہاں خواب مشتاق دیدار کو
مجھے عشق اس پاس یوں لے گیا
کوئی لاوے جیسے گنہگار کو
محبت میں دشوار دینی ہے جاں
نہ جاتے سنا سہل آزار کو
کوئی دن کرے زندگی عشق میں
جو دم لینے دیں دل کے بیمار کو
بکا میں تو بازار خوبی میں جا
کہ واں بیچتے تھے خریدار کو
مرے منھ پہ رکھا ہے رنگ اب تلک
ہزار آفریں چشم خونبار کو
تب اک جرعہ مے دیں مجھے مغبچے
گرو جب کروں رخت و دستار کو
کرو مت درنگ اٹھتے اس پینٹھ میں
چلو مول لو میرؔ بازار کو
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *