زرد و زار و زبوں جو ہم ہیں چاہت کے بیمار ہیں سب
سیل سے ہلکے عاشق ہوں تو جوش و خروش بھریں آویں
تہ پائی نہیں جاتی ان کی دریا سے تہ دار ہیں سب
ایک پریشاں طرفہ جماعت دیکھی چاہنے والوں کی
جینے کے خواہان نہیں ہیں مرنے کو تیار ہیں سب
کیا کیا خواہش بے کس بے بس مشتاق اس سے رکھتے ہیں
لیکن دیکھ کے رہ جاتے ہیں چپکے سے ناچار ہیں سب
عشق جنھوں کا پیشہ ہووے سینکڑوں ہوں تو ایک ہی ہیں
کوہکن و مجنوں و وامق میرؔ ہمارے یار ہیں سب