سب کام سونپ اس کو جو کچھ کام بھی چلے

سب کام سونپ اس کو جو کچھ کام بھی چلے
جپ نام اس کا صبح کو تا نام بھی چلے
گل بکھرے لال میرے قفس پر خزاں کی باؤ
شاید کہ اب بہار کے ایام بھی چلے
خط نکلے پر بھی یار نہ لکھتا تھا کوئی حرف
سو اس کو اب تو لوگوں کے پیغام بھی چلے
سایہ سی اس کے پیچھے لگی پھرتی ہے پری
وہ کیا جو آگے یار کے دو گام بھی چلے
پھر صعوہ کے خرام کی بے لطفی دیکھیو
جب راہ دو قدم وہ گل اندام بھی چلے
اب وہ نہیں کہ تھامے تھمے اضطرار ہے
اک عمر ہم تو ہاتھ سے دل تھام بھی چلے
یہ راہ دور عشق نہیں ہوتی میرؔ طے
ہم صبح بھی چلے گئے ہیں شام بھی چلے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *