سب کھا گئے جگر تری پلکوں کے کاو کاو

سب کھا گئے جگر تری پلکوں کے کاو کاو
ہم سینہ خستہ لوگوں سے بس آنکھ مت لگاؤ
آنکھوں کا جھڑ برسنے سے ہتھیا کے کم نہیں
پل مارتے ہے پیش نظر ہاتھی کا ڈباؤ
کشتی چشم ڈوبی رہی بحر اشک میں
آئی نہ پار ہوتی نظر عاشقوں کی ناؤ
سینے کے اپنے زخم سے خاطر ہو جمع کیا
دل ہی کی اور پاتے ہیں سب لوہو کا بہاؤ
بیتابی دل افعی خامہ نے کیا لکھی
کاغذ کو شکل مار سراسر ہے پیچ تاؤ
ہرچند جانیں جاتی ہیں پر تیغ جور سے
تم کو ہمارے سر کی سوں تم ہاتھ مت اٹھاؤ
سر نیچے ہو تو پاؤں ترا دابیں ہم کبھی
دبتا وہی ہے جس کے تئیں کچھ بھی ہو دباؤ
چاک قفس سے آنکھیں لگیں کب تلک رہیں
اک برگ گل نسیم ہماری طرف بھی لاؤ
غیرت کا عشق کی ہے طریقہ ہی کچھ جدا
اس کی گلی کی خضرؑ کو بھی راہ مت بتاؤ
ظاہر ہیں دیکھنے سے گنہ کیونکہ تیرے سب
چھپتے ہیں میرؔ کوئی دلوں کے کہیں لگاؤ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *