الجھاؤ تھا جو اس کی زلفوں سے سو گیا نہ
وے زلفیں عقدہ عقدہ ہیں آفت زمانہ
عقدہ ہمارے دل کا ان سے بھی کچھ کھلا نہ
غنچے کے دل کی کچھ تھی واشد بہار آئی
افسوس ہے کہ موسم گل کا بہت رہا نہ
مرنا ہمارا اس سے کہہ دیکھیں یار جا کر
حال اس کا یہ خبر بھی درہم کرے ہے یا نہ
کن رس بھی حیف اس کو تھا نہ کہا تو کیا کیا
قطعہ لطیفہ بذلہ شعر و غزل ترانہ
بیمار عشق بے کس جیتا رہے گا کیوں کر
احوال گیر کم ہو پہنچے بہم دوا نہ
یوں درمیاں چمن کے لے تو گئے تھے ہم کو
پر فرط بے خودی سے ہم تھے نہ درمیانہ
چھو سکتے بھی نہیں ہیں ہم لپٹے بال اس کے
ہیں شانہ گیر سے جو یہ لڑکے نرم شانہ
وحشت چمن میں ہم کو کل صبح بیشتر تھی
بے اس کے پھول گل سے جی ایک دم لگا نہ
صحبت بر آر اپنی لوگوں سے کیونکے ہووے
معقول گو ہم اتنے وے ایسے ہرزہ چا نہ
رگڑے گئے ہیں جبہے ازبسکہ راستوں کے
آئینہ ہو رہا ہے وہ سنگ آستانہ
ہے عینہٖ ابلنا سیلاب رود کا سا
اے میرؔ چشم تر ہے یا کوئی رود خانہ