سخن مشتاق ہے عالم ہمارا

سخن مشتاق ہے عالم ہمارا
غنیمت ہے جہاں میں دم ہمارا
رہے ہم عالم مستی میں اکثر
رہا کچھ اور ہی عالم ہمارا
بہت ہی دور ہم سے بھاگتے ہو
کرو ہو پاس کچھ تو کم ہمارا
بکھر جاتے ہیں کچھ گیسو تمھارے
ہوا ہے کام دل برہم ہمارا
رکھے رہتے ہیں دل پر ہاتھ اے میرؔ
یہیں شاید کہ ہے سب غم ہمارا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *