سطح جو ہاتھوں میں تھا اس کے رخ گلفام کا

سطح جو ہاتھوں میں تھا اس کے رخ گلفام کا
ہاتھ ملنا کام ہے اب عاشق بدنام کا
کچھ نہیں عنقا صفت پر شہرۂ آفاق ہوں
سیر کے قابل ہے ہونا پہن میرے نام کا
ہجر کی راتیں بڑی چھوٹی جو ٹک ہوتیں کہیں
اس میں کچھ نقصان ہوتا تھا مگر ایام کا
روؤں یاد زلف میں اس کی تو پھر روتا رہوں
صبح تک جاتا نہیں ہے مینھ آیا شام کا
تاب کس کو اپنا کچا سوت کچھ الجھا ہے میرؔ
گم ہے سررشتہ ہمارے خواب اور آرام کا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *