مذکور ہو چکا ہے مرا حال ہر کہیں
اب فائدہ سراغ سے بلبل کے باغباں
اطراف باغ ہوں گے پڑے مشت پر کہیں
خطرے سے ہونٹ سوکھ ہی جاتے تھے دیکھ کر
آتا نظر ہمیں جو کوئی چشم تر کہیں
عاشق ترے ہوئے تو ستم کچھ نہ ہو گیا
مرنا پڑا ہے ہم کو خدا سے تو ڈر کہیں
کچھ کچھ کہوں گا روز یہ کہتا تھا دل میں میں
آشفتہ طبع میرؔ کو پایا اگر کہیں
سو کل ملا مجھے وہ بیاباں کی سمت کو
جاتا تھا اضطراب زدہ سا ادھر کہیں
لگ چل کے میں برنگ صبا یہ اسے کہا
ک اے خانماں خراب ترا بھی ہے گھر کہیں
آشفتہ جا بہ جا جو پھرے ہے تو دشت میں
جاگہ نہیں ہے شہر میں تجھ کو مگر کہیں
خوں بستہ اپنی کھول مژہ پوچھتا بھی گر
رکھ ٹک تو اپنے حال کو مد نظر کہیں
آسودگی سی جنس کو کرتا ہے کون سوخت
جانے ہے نفع کوئی بھی جی کا ضرر کہیں
موتی سے تیرے اشک ہیں غلطاں کسو طرف
یاقوت کے سے ٹکڑے ہیں لخت جگر کہیں
تاکے یہ دشت گردی و کب تک یہ خستگی
اس زندگی سے کچھ تجھے حاصل بھی مر کہیں
کہنے لگا وہ ہو کے پر آشفتہ یک بیک
مسکن کرے ہے دہر میں مجھ سا بشر کہیں
آوارگوں کا ننگ ہے سننا نصیحتیں
مت کہیو ایسی بات تو بار دگر کہیں
تعئین جا کو بھول گیا ہوں پہ یہ ہے یاد
کہتا تھا ایک روز یہ اہل نظر کہیں
بیٹھے اگرچہ نقش ترا تو بھی دل اٹھا
کرتا ہے جائے باش کوئی رہگذر کہیں
کتنے ہی آئے لے کے سر پر خیال پر
ایسے گئے کہ کچھ نہیں ان کا اثر کہیں