کہ تو دارو پیے ہے رات کو مل کر کمینوں سے
گئی گرم اختلاطی کب کی ان سحر آفرینوں سے
لگے رہتے ہیں داغ ہجر ہی اب اپنے سینوں سے
گلے لگ کر نہ یک شب کاش وہ مہ سوگیا ہوتا
مری چھاتی جلا کرتی ہے اب کتنے مہینوں سے
خدا جانے ہے اپنا تو جگر کانپا ہی کرتا ہے
چڑھی تیوری سے محبوبوں کی اور ابرو کی چینوں سے
بہت کوتاہ دامن خرقے شیخوں کے پھٹے پائے
کہیں نکلے تھے گورے ہاتھ اس کے آستینوں سے
رہے محو خیال اس کے تو یک دقت سے ہاتھ آئے
نزاکت اس کمر کی پوچھی ہم باریک بینوں سے
برنگ برگ گل ساتھ ایک شادابی کے ہوتا ہے
عرق چیں بھیگتا ہے دلبروں کے جب پسینوں سے
بہت میں لخت دل رویا مجھے اک خلق نے جانا
ہوا ہے پہن میرا نام ان رنگیں نگینوں سے
غزل ہی کی ردیف و قافیہ کا رفتہ رہنا ہے
نکلنا میرؔ اب مشکل ہے میرا ان زمینوں سے