سوز دروں نے آخر جی ہی کھپا دیا ہے

سوز دروں نے آخر جی ہی کھپا دیا ہے
ٹھنڈا دل اب ہے ایسا جیسے بجھا دیا ہے
اب نیند کیونکے آوے گرمی نے عاشقی کی
دل ہے جدھر وہ پہلو سارا جلا دیا ہے
حرف غلط تھے کیا ہم صفحے پہ زندگی کے
جو صاف یوں قضا نے ہم کو مٹا دیا ہے
کڑھتے ہمیشہ رہنا ہم کو بغیر اس کے
کیا روگ دوستی نے جی کو لگا دیا ہے
اچرج ہے یہ کہ ہے وہ میرا چراغ تربت
کتنوں کا ورنہ خوں کر ان نے دبا دیا ہے
آنکھوں کی کچھ حیا تھی سو موند لیں ادھر سے
پردہ جو رہ گیا تھا وہ بھی اٹھا دیا ہے
ہم دل زدہ رہے ہیں انواع تلخ سنتے
ان شکریں لبوں نے ہم کو رجھا دیا ہے
جب طول میں دیا ہے نامے کو شوق کے تب
جوں کاغذ ہوائی ان نے اڑا دیا ہے
مرنے ہی کا مہیا اپنے رہا کیا ہوں
واں تیغ اٹھائی ان نے یاں سر جھکا دیا ہے
کیا بے نمک ہوا ہے پروانہ راکھ جل کر
رہ رہ کے ہم جلے تو ہم کو مزہ دیا ہے
تھے جوں چراغ مفلس مضطر نہ ترک تھا جب
بارے فقیری نے تو آرام سا دیا ہے
شہروں کے تنگ کوچے کاہے کو گوں ہیں اپنی
ہم وحشیوں کے قابل رہنے کے بادیہ ہے
نا درد مند بلبل نالاں ہے بے تہی سے
دل ہم کو بھی خدا نے درد آشنا دیا ہے
کیا نامہ بر ہمارا ہے صاف بے مروت
خط نا نوشتہ ہم کو اودھر سے لا دیا ہے
عالم شکار ہے وہ اس سن میں میرؔ اس کو
ڈھب جان مارنے کا کن نے بتا دیا ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *