سوزدروں سے آگ لگی ہے سارے بدن میں تب سی ہے

سوزدروں سے آگ لگی ہے سارے بدن میں تب سی ہے
طاقت دل کی تمام ہوئی ہے جی کی چال کڈھب سی ہے
سینے کے زخم نمایاں رہتے چاک کیے سو پردۂ در
مدت سے یہ رخنے پڑے تھے چھاتی پھٹی میں اب سی ہے
پرسش حال کبھو کرتے ہیں ناز و چشم اشارت سے
ان کی عنایت حال پہ میرے کیا پوچھو ہو غضب سی ہے
گود میں میری رکھ دیتا ہے پاؤں حنائی دبنے کو
یوں پامال جو میں ہوتا ہوں مجھ کو بھی تو دب سی ہے
لطف کہاں وہ بات کیے پر پھول سے جھڑنے لگ جاویں
سرخ کلی بھی گل کی اگرچہ یار کے لعل لب سی ہے
خانہ خراب ہو خواہش دل کا آہ نہایت اس کو نہیں
جان لبوں پر آئی ہے پر تو بھی گرم طلب سی ہے
تم کہتے ہو بوسہ طلب تھے شاید شوخی کرتے ہوں
میرؔ تو چپ تصویر سے تھے یہ بات انھوں سے عجب سی ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *