شیخ حرم سے لڑکے چلا ہوں اب کعبے میں نہ آؤں گا

شیخ حرم سے لڑکے چلا ہوں اب کعبے میں نہ آؤں گا
تا بت خانہ ہر قدم اوپر سجدہ کرتا جاؤں گا
بہر پرستش پیش صنم ہاتھوں سے قسیس رہباں کے
رشتہ سبحہ تڑاؤں گا زنار گلے سے بندھاؤں گا
رود دیر کے پانی سے یا آب چاہ سے اس جا کے
واسطے طاعت کفر کے میں دونوں وقت نہاؤں گا
طائف رستہ کعبے کا جو کوئی مجھ سے پوچھے گا
جانب دیر اشارت کر میں راہ ادھر کی بھلاؤں گا
بے دیں اب جو ہوا سو ہوا ہوں طوف حرم سے کیا مجھ کو
غیر از سوئے صنم خانہ میں رو نہ ادھر کو لاؤں گا
آگے مسافر میرؔ عرب میں اور عجم میں کہتے ہیں
اب شہروں میں ہندستاں کے کافر میرؔ کہاؤں گا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *