صبر کر رہ جو وہ عتاب کرے

صبر کر رہ جو وہ عتاب کرے
ورنہ کیا جانے کیا خطاب کرے
عشق میں دل بہت ہے بے آرام
چین دیوے تو کوئی خواب کرے
وقت یاں کم ہے چاہیے آدم
کرنا جو کچھ ہو سو شتاب کرے
پھاڑ کر خط کو ان نے پھینک دیا
نامہ بر اس کا کیا جواب کرے
ہے برافروختہ جو خشم سے وہ
آتش شعلہ زن کو آب کرے
ہے تو یک قطرہ خون ہی لیکن
قہر ہے دل جو اضطراب کرے
میرؔ اٹھ بت کدے سے کعبے گیا
کیا کرے جو خدا خراب کرے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *