سہل نہیں ہے جی کا ڈھہنا کیسی خانہ خرابی ہے
آگے ایسا نکھرا نکھرا کاہے کو میں پھرتا تھا
جب سے آنکھ لگی اس مہ سے رنگ مرا مہتابی ہے
کس سے سبب میں پوچھوں یارب اپنی سوزش سینے کا
چھاتی جو جلتی رہتی ہے ات گت آگ مگر یاں دابی ہے
رنج و محن نے عشق کے مجھ کو راحت سے مایوس کیا
دل کے تئیں بیتابی ہے میری آنکھوں کو بے خوابی ہے
ابر کوئی رویا ہے شاید برسوں وادی لیلیٰ میں
سیر کیا وہ قطعہ زمیں کا اب تک بھی سیرابی ہے
شہر حسن عجب بستی ہے ڈھونڈے پیدا مہر نہیں
ہے تو متاع گراں قیمت پھر اس کی بلا نایابی ہے
در بدر و رسوا و عاشق شاعر شاغل کامل میرؔ
گہ کعبے میں دیر میں گاہے کیا کافر ہر بابی ہے