صد گونہ عاشقی میں ہم نے جفا سہی ہے

صد گونہ عاشقی میں ہم نے جفا سہی ہے
پر یہ کہا نہ ظالم اس کی نہیں سہی ہے
کرتی پھری ہے رسوا سارے چمن میں مجھ کو
گر کوئی بات دل کی بلبل سے میں کہی ہے
ہے صبح کا سا عرصہ پیری کا اس میں کیا ہو
باقی ہے وقت کتنا فرصت کہاں رہی ہے
درویش جب ہوئے ہم تب ہے ہمیں برابر
کشکول بازگوں ہے یا افسرشہی ہے
جیتے رہے بہت ہم جو یہ ستم اٹھائے
عمر دراز کی سب تقصیر و کوتہی ہے
رونے میں متصل ہے ہونٹوں پہ آہ میری
جاتا نہیں ہے سمجھا یہ باؤ کیا بہی ہے
آزار عاشقی میں کاہے کی پھر توقع
ہو جائے یاس جس سے سو رنج یہ وہی ہے
روتا ہمیں نظر کر رہنا کیے کنارہ
چڑھنا ہمارے منھ پہ دریا کی بے تہی ہے
چلاہٹ اس طرح کی جز میرؔ کس سے ہووے
باور نہ ہو تو دیکھو یہ ہو نہ ہو وہی ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *