ابر آیا زور غیرت تم بھی ٹک پیدا کرو
مستی و دیوانگی کا عہد ہے بازار میں
پائے کوباں دست افشاں آن کر سودا کرو
ہر جگہ دلکش ہے اس کی برگ گل سے جسم میں
ایک جا تو جی لگاؤ دل کے تیں بے جا کرو
ہے تکلف ہے تعین اس قصب پوشی کی قید
خرقۂ صد چاک پہنو آپ کو رسوا کرو
گرچہ ہم پر بستہ طائر ہیں پر اے گل ہائے تر
کچھ ہمیں پروا نہیں ہے تم اگر پروا کرو