ضعف دماغ سے کیا پوچھو ہو اب تو ہم میں حال نہیں

ضعف دماغ سے کیا پوچھو ہو اب تو ہم میں حال نہیں
اتنا ہے کہ طپش سے دل کی سر پر وہ دھمّال نہیں
گاہے گاہے اس میں ہم نے منھ اس مہ کا دیکھا تھا
جیسا سال کہ پر کا گذرا ویسا بھی یہ سال نہیں
بالوں میں اس کے دل الجھا تھا خوب ہوا جو تمام ہوا
یعنی گیا جب پیچ سے جی ہی تب پھر کچھ جنجال نہیں
ایسی متاع قلیل کے اوپر چشم نہ کھولیں اہل نظر
آنکھ میں آوے جو کچھ ہووے دنیا اتنی مال نہیں
سرو چماں کو سیر کیا تھا کبک خراماں دیکھ لیا
اس کا سا انداز نہ پایا اس کی سی یہ چال نہیں
̯ل تو ان میں پھنس جاتا ہے جی ڈوبے ہے دیکھ ادھر
چاہ زنخ گو چاہ نہیں ہے بال اس کے گو جال نہیں
کب تک دل کے ٹکڑے جوڑوں میرؔ جگر کے لختوں سے
کسب نہیں ہے پارہ دوزی میں کوئی وصّال نہیں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *