وار جب کرتے ہیں منھ پھیر لیا کرتے ہیں
عشق کرنا نہیں آسان بہت مشکل ہے
چھاتی پتھر کی ہے ان کی جو وفا کرتے ہیں
شوخ چشمی تری پردے میں ہے جب تک تب تک
ہم نظر باز بھی آنکھوں کی حیا کرتے ہیں
نفع بیماری عشقی کو کرے سو معلوم
یار مقدور تلک اپنی دوا کرتے ہیں
آگ کا لائحہ ظاہر نہیں کچھ لیکن ہم
شمع تصویر سے دن رات جلا کرتے ہیں
اس کے قربانیوں کی سب سے جدا ہے رہ و رسم
اول وعدہ دل و جان فدا کرتے ہیں
رشک ایک آدھ کا جی مارتا ہے عاشق کا
ہر طرف اس کو تو دو چار دعا کرتے ہیں
بندبند ان کے جدا دیکھوں الٰہی میں بھی
میرے صاحب کو جو بندے سے جدا کرتے ہیں
دل کو جانا تھا گیا رہ گیا ہے افسانہ
روز و شب ہم بھی کہانی سی کہا کرتے ہیں
واں سے یک حرف و حکایت بھی نہیں لایا کوئی
یاں سے طومار کے طومار چلا کرتے ہیں
بود و باش ایسے زمانے میں کوئی کیونکے کرے
اپنی بد خواہی جو کرتے ہیں بھلا کرتے ہیں
حوصلہ چاہیے جو عشق کے آزار کھنچیں
ہر ستم ظلم پہ ہم صبر کیا کرتے ہیں
میرؔ کیا جانے کسے کہتے ہیں واشد وے تو
غنچہ خاطر ہی گلستاں میں رہا کرتے ہیں