پھرتے ہیں ہم بھی ہاتھ میں سر کو لیے ہوئے
آؤ گے ہوش میں تو ٹک اک سدھ بھی لیجیو
اب تو نشے میں جاتے ہو زخمی کیے ہوئے
جی ڈوبتا ہے اس گہرتر کی یاد میں
پایان کار عشق میں ہم مرجیے ہوئے
سی چاک دل کہ چشم سے ناصح لہو تھمے
ہوتا ہے کیا ہمارے گریباں سیے ہوئے
کافر ہوئے بتوں کی محبت میں میرؔ جی
مسجد میں آج آئے تھے قشقہ دیے ہوئے