اس جنس کا یاں ہم نے خریدار نہ پایا
حق ڈھونڈنے کا آپ کو آتا نہیں ورنہ
عالم ہے سبھی یار کہاں یار نہ پایا
غیروں ہی کے ہاتھوں میں رہے دست نگاریں
کب ہم نے ترے ہاتھ سے آزار نہ پایا
جاتی ہے نظر خس پہ گہ چشم پریدن
یاں ہم نے پر کاہ بھی بے کار نہ پایا
تصویر کے مانند لگے در ہی سے گذری
مجلس میں تری ہم نے کبھو بار نہ پایا
سوراخ ہے سینے میں ہر اک شخص کے تجھ سے
کس دل کے ترا تیر نگہ پار نہ پایا
مربوط ہیں تجھ سے بھی یہی ناکس و نااہل
اس باغ میں ہم نے گل بے خار نہ پایا
دم بعد جنوں مجھ میں نہ محسوس تھا یعنی
جامے میں مرے یاروں نے اک تار نہ پایا
آئینہ بھی حیرت سے محبت کی ہوئے ہم
پر سیر ہو اس شخص کا دیدار نہ پایا
وہ کھینچ کے شمشیر ستم رہ گیا جو میرؔ
خوں ریزی کا یاں کوئی سزاوار نہ پایا