ہے آبرو فقیر کی شاہ ولا کے ہاتھ
بٹھلا دیا فلک نے ہمیں نقش پا کے رنگ
اٹھنا ہمارا خاک سے ہے اب خدا کے ہاتھ
آنکھوں میں آشنا تھا مگر دیکھا تھا کہیں
نو گل کل ایک دیکھا ہے میں نے صبا کے ہاتھ
دیکھ اس کو مجھ کو یاروں نے حیران ہو کہا
کس ڈھب سے لگ گیا ہے یہ گوہر گدا کے ہاتھ
دل کی گرہ نہ ناخن تدبیر سے کھلی
عقدہ کھلے گا میرؔ یہ مشکل کشا کے ہاتھ