عشق بلاانگیز مفتن یہ تو کوئی قیامت ہے

عشق بلاانگیز مفتن یہ تو کوئی قیامت ہے
جس سے پیار رکھے ہے کچھ یہ اس کے سر پر شامت ہے
موسم گل میں توبہ کی تھی واعظ کے میں کہنے سے
اب جو رنگ بہار کے دیکھے شرمندہ ہیں ندامت ہے
شیخ کی ادنیٰ حرکت بھی میں خرق عادت جانوں ہوں
مسجد سے میخانے آیا یہ بھی اس کی کرامت ہے
ایک طرف میں عشق کیا تھا رسوائی یہ کہاں سے ہوئی
اب جو گھر سے نکل آتا ہوں چاروں طرف سے ملامت ہے
تو ہی کر انصاف صبا ٹک باغوں باغوں پھرے ہے تو
روئے گل اس کا ساروہے سرو کا ایسا قامت ہے
صبح کو خورشید اس کے گھر پر طالع ہو کر آتا ہے
دیکھ لیا جو ان نے کبھو تو اس سادہ کی شامت ہے
چھوڑو اس اوباش کا ملنا ورنہ سر کٹواؤ گے
چاہ رہو گے بہتیروں کو سر جو میرؔ سلامت ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *