عشق چھپا کر پچھتائے ہم سوکھ گئے رنجور ہوئے

عشق چھپا کر پچھتائے ہم سوکھ گئے رنجور ہوئے
یعنی آنسو پی پی گئے سو زخم جگر ناسور ہوئے
ہم جو گئے سرمست محبت اس اوباش کے کوچے میں
کھائیں کھڑی تلواریں اس کی زخمی نشے میں چور ہوئے
کوئی نہ ہم کو جانے تھا ہم ایسے تھے گمنام آگے
یمن عشق سے رسوا ہو کر شہروں میں مشہور ہوئے
کیا باطل ناچیز یہ لونڈے قدر پر اپنی نازاں ہیں
قدرت حق کے کھیل تو دیکھو عاشق بے مقدور ہوئے
سر عاشق کا کاٹ کے ان کو سربگریباں رہنا تھا
سو تو پگڑی پھیر رکھی ہے اور بھی وے مغرور ہوئے
زرد و زبون و زار ہوئے ہیں لطف ہے کیا اس جینے کا
مردے سے بھی برسوں کے ہم ہجراں میں بے نور ہوئے
پاس ہی رہنا اکثر اس کے میرؔ سبب تھا جینے کا
پہنچ گئے مرنے کے نزدیک اس سے جو ٹک دور ہوئے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *