وہی جی مارے جس کو پیار کرے
غنچہ ہے سر پہ داغ سودا کا
دیکھیں کب تک یہ گل بہار کرے
آنکھیں پتھرائیں چھاتی پتھر ہے
وہ ہی جانے جو انتظار کرے
سہل وہ آشنا نہیں ہوتا
دیر میں کوئی اس کو یار کرے
کنج میں دامگہ کے ہوں شاید
صید لاغر کو بھی شکار کرے
کبھو سچے بھی ہو کوئی کب تک
جھوٹے وعدوں کو اعتبار کرے
پھول کیا میرؔ جی کو وہ محبوب
سر چڑھاوے گلے کا ہار کرے