عشق کیے پچھتائے ہم تو دل نہ کسو سے لگانا تھا

عشق کیے پچھتائے ہم تو دل نہ کسو سے لگانا تھا
جیدھر ہو وہ مہ نکلا اس راہ نہ ہم کو جانا تھا
غیریت کی اس کی شکایت یار عبث اب کرتے ہیں
طور اس شوخ ستم پیشہ کا طفلی سے بیگانہ تھا
بزم عیش کی شب کا یاں دن ہوتے ہی یہ رنگ ہوا
شمع کی جاگہ دود تنک تھا خاکستر پروانہ تھا
دخل مروت عشق میں تھا تو دروازے سے تھوڑی دور
ہمرہ نعش عاشق کے اس ظالم کو بھی آنا تھا
طرفہ خیال کیا کرتا تھا عشق و جنوں میں روز و شب
روتے روتے ہنسنے لگا یہ میرؔ عجب دیوانہ تھا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *