قدر ہماری کچھ جانو گے دل کو کہیں جو لگاؤ گے
صبر کہاں بیتابی دل سے چین کہاں بے خوابی سے
سو سو بار گلی میں تکتے گھر سے باہر آؤ گے
شوق کمال کو پہنچا تو ہیں خط و کتابت حرف و سخن
قاصد کے محتاج نہ ہو گے آپھی دوڑے جاؤ گے
صنعت گریاں صاحب بندہ دل کے لگے کب پیش گئیں
ایک نہیں وہ سننے کا تم باتیں بہت بناؤ گے
چاہ کیے درویش ہوئے تو آب و خورش کی فکر نہیں
لوہو پیو گے اپنا ہر دم غم غصہ ہی کھاؤ گے
رنگ محبت کے ہیں کتنے کوئی تمھیں خوش آوے گا
خون کرو گے یا دل کو یا داغ جگر پہ جلاؤ گے
رہتے ہیں مبہوت الفت ہیں گم گشتہ کلفت میں
بھولے بھولے آپھی پھرو گے کس کو راہ بتاؤ گے
اشک تو پانی سے ہیں لیکن جلتے جلتے آویں گے
دل کے لگے حیران ہوں صاحب کس ڈھب مل کے بجھاؤ گے
چاہت میرؔ سبھی کرتے ہیں رنج و تعب میں رہتے ہیں
تم جو ابھی بیتاب ہو ایسے جی سے ہاتھ اٹھاؤ گے