جی کا جانا ٹھہر رہا ہے صبح گیا یا شام گیا
عشق کیا سو دین گیا ایمان گیا اسلام گیا
دل نے ایسا کام کیا کچھ جس سے میں ناکام گیا
کس کس اپنی کل کو رووے ہجراں میں بے کل اس کا
خواب گئی ہے تاب گئی ہے چین گیا آرام گیا
آیا یاں سے جانا ہی تو جی کا چھپانا کیا حاصل
آج گیا یا کل جاوے گا صبح گیا یا شام گیا
ہائے جوانی کیا کیا کہیے شور سروں میں رکھتے تھے
اب کیا ہے وہ عہد گیا وہ موسم وہ ہنگام گیا
گالی جھڑکی خشم و خشونت یہ تو سردست اکثر ہیں
لطف گیا احسان گیا انعام گیا اکرام گیا
لکھنا کہنا ترک ہوا تھا آپس میں تو مدت سے
اب جو قرار کیا ہے دل سے خط بھی گیا پیغام گیا
نالۂ میرؔ سواد میں ہم تک دوشیں شب سے نہیں آیا
شاید شہر سے اس ظالم کے عاشق وہ بدنام گیا