عشق و جنوں کی کیا اب تدبیر ہے مناسب

عشق و جنوں کی کیا اب تدبیر ہے مناسب
زنجیر ہے مناسب شمشیر ہے مناسب
دوری شعلہ خویاں آخر جلا رکھے گی
صحبت جو ایسی ہووے درگیر ہے مناسب
جلدی نہ قتل میں کر پچھتاوے گا بہت تو
خوں ریزی میں ہماری تاخیر ہے مناسب
رسوائے شہر ہونا عزت ہے عاشقی میں
احوال کی ہمارے تشہیر ہے مناسب
دل کی خرابی کے تو درپے ہے اے صنم کیوں
اس خانۂ خدا کی تعمیر ہے مناسب
شب اس کو میں نے دیکھا سوتے بغل میں اپنی
اس خواب کی نہ کرنی تعبیر ہے مناسب
رحم آشنا کسو کو اس بستی میں نہ پایا
اسلامیوں کی یاں کے تکفیر ہے مناسب
ہے سرگذشت اپنی ننوشتنی ہی بہتر
گذری سو گذری کیا اب تحریر ہے مناسب
دنیا میں کوئی پھر پھر آیا نہیں ہے صاحب
اک بار تم کو مرنا اے میرؔ ہے مناسب
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *