لاگ جی کی جس سے ہو دشمن ہے اپنی جان کا
عاشق و معشوق کی میں طرفہ صحبت سیر کی
ایک جی مارے ہے مرہون ایک ہے احسان کا
میں خرد گم عشق میں اس لڑکے کے آخر ہوا
یہ ثمر لایا نہ دیکھا چاہنا نادان کا
مرنا اس کے عشق میں خالی نہیں ہے حسن سے
رشک کے قابل ہے جو کشتہ ہے اس میدان کا
گر پڑیں گے ٹوٹ کر اکثر ستارے چرخ سے
ہل گیا جو صبح کو گوہر کسی کے کان کا
ہر ورق ہر صفحے میں اک شعر شور انگیز ہے
عرصۂ محشر ہے عرصہ میرے بھی دیوان کا
کیا ملاوے آنکھ نرگس اس کی چشم سرخ سے
زرد اس غم دیدہ کو آزار ہے یرقان کا
بات کرتے جائے ہے منھ تک مخاطب کے جھلک
اس کا لعل لب نہیں محتاج رنگ پان کا
کیا کہوں سارا زمانہ کشتہ و مردہ ہے میرؔ
اس کے اک انداز کا اک ناز کا اک آن کا