جس سے دل آگ و چشم آب ہے میاں
تن میں جب تک ہے جاں تکلف ہے
ہم میں اس میں ابھی حجاب ہے میاں
گو نہیں میں کسو شمار میں یاں
عاقبت ایک دن حساب ہے میاں
کو دماغ و جگر کہاں وہ قلب
یاں عجب ایک انقلاب ہے میاں
زلف بل کھا رہی ہے گو اس کی
دل کو اپنے تو پیچ و تاب ہے میاں
لطف و مہر و وفا وہ کیا جانے
ناز ہے خشم ہے عتاب ہے میاں
لوہو اپنا پیوں ہوں چپکا ہوں
کس کو اس بن سر شراب ہے میاں
چشم وا یاں کی چشم بسمل ہے
جاگنا یہ نہیں ہے خواب ہے میاں
منھ سے کچھ بولتا نہیں قاصد
شاید اودھر سے اب جواب ہے میاں
دل ہی اپنا نہیں فقط بے چین
جی کو بھی زور اضطراب ہے میاں
چاہیے وہ کہے سو لکھ رکھیں
ہر سخن میرؔ کا کتاب ہے میاں