محل شکر ہے آتا نہیں گلہ مجھ کو
تنک شراب ضعیف الدماغ ہوں ساقی
دم سحر مئے پر زور مت پلا مجھ کو
پڑا رہے کوئی مردہ سا کب تلک خاموش
ہلا کہیں لب جاں بخش کو جلا مجھ کو
جنوں میں سخت ہے اس زلف سے علاقۂ دل
خوش آ گیا ہے نہایت یہ سلسلہ مجھ کو
فلک کی چرخ زنی برسوں ہو تو مجھ سا ہو
سمجھ سمجھ کے تنک خاک میں ملا مجھ کو
رہا تھا خوں تئیں ہمرہ سو آپھی خون ہے حیف
رفیق تجھ سا ملے گا کہاں دلا مجھ کو
درستی جیب کی اتنی نہیں ہے اے ناصح
بنے تو سینۂ صد چاک دے سلا مجھ کو
ہوا ہوں خاک پہ دل کی وہی ہے نا صافی
ابھی اس آئینے کی کرنی ہے جلا مجھ کو
مگر کہ مردن دشوار میرؔ سہل ہے شوخ
ہلاک کرتا ہے تیرا مساہلہ مجھ کو