سجدہ اس آستاں کا کیا پھر وفات کی
نسبت تو دیتے ہیں ترے لب سے پر ایک دن
ناموس یوں ہی جائے گی آب حیات کی
صد حرف زیر خاک تہ دل چلے گئے
مہلت نہ دی اجل نے ہمیں ایک بات کی
ہم تو ہی اس زمانے میں حیرت سے چپ نہیں
اب بات جاچکی ہے سبھی کائنات کی
پژمردہ اس کلی کے تئیں وا شدن سے کیا
آہ سحر نے دل پہ عبث التفات کی
حور و پری فرشتہ بشر مار ہی رکھا
دزدیدہ تیرے دیکھنے نے جس پہ گھات کی
اس لب شکر کے ہیں گے جہاں ذائقہ شناس
اس جا دعا پہنچتی نہیں ہے نبات کی
عرصہ ہے تنگ چال نکلتی نہیں ہے اور
جو چال پڑتی ہے سو وہ بازی کی مات کی
برقع اٹھا تھا یار کے منھ کا سو میرؔ کل
سنتے ہیں آفتاب نے جوں توں کے رات کی