غیرت سے رہ گئے ہم یک سو کباب ہو کر
اس روئے آتشیں سے برقع سرک گیا تھا
گل بہ گیا چمن میں خجلت سے آب ہو کر
کل رات مند گئی تھیں بہتوں کی آنکھیں غش سے
دیکھا کیا نہ کر تو سرمست خواب ہو کر
پردہ رہے گا کیونکر خورشید خاوری کا
نکلے ہے صبح وہ بھی اب بے نقاب ہو کر
یک قطرہ آب میں نے اس دور میں پیا ہے
نکلا ہے چشم تر سے وہ خون ناب ہو کر
آ بیٹھتا تھا صوفی ہر صبح میکدے میں
شکر خدا کہ نکلا واں سے خراب ہو کر
شرم و حیا کہاں تک ہیں میرؔ کوئی دن کے
اب تو ملا کرو تم ٹک بے حجاب ہو کر