پلک سے پلک آشنا ہی نہیں
گلہ عشق کا بدو خلقت سے ہے
غم دل کو کچھ انتہا ہی نہیں
محبت جہاں کی تہاں ہو چکی
کچھ اس روگ کی بھی دوا ہی نہیں
دکھایا کیے یار اس رخ کا سطح
کہیں آرسی کو حیا ہی نہیں
وہ کیا کچھ نہیں حسن کے شہر میں
نہیں ہے تو رسم وفا ہی نہیں
چمن محو اس روئے خوش کا ہے سب
گل تر کی اب وہ ہوا ہی نہیں
نہیں دیر اگر میرؔ کعبہ تو ہے
ہمارے کوئی کیا خدا ہی نہیں