رہتی ہے خلش نالوں سے میرے دل شب میں
حسرت کی جگہ ہے نہ کہ سبزان گل اندام
جاتے ہیں چلے آگے سے آتے نہیں ڈھب میں
افتادگی پر بھی نہ چھوا دامن انھوں کا
کوتاہی نہ کی دلبروں کے ہم نے ادب میں
کر خوف کَلک خَسپ کی جو سرخ ہیں آنکھیں
جلتے ہیں تر و خشک بھی مسکیں کے غضب میں
پایا نہ کنھوں نے اسے کوشش کی بہت میرؔ
سب سالک و مجذوب گئے اس کی طلب میں