فصل گل میں اسیر ہوئے تھے من ہی کی رہی من کے بیچ

فصل گل میں اسیر ہوئے تھے من ہی کی رہی من کے بیچ
اب یہ ستم تازہ ہے ہم پر قید کیا ہے چمن کے بیچ
یہ الجھاؤ سلجھتا ہم کو دے ہے دکھائی مشکل سا
یعنی دل اٹکا ہے جا کر ان بالوں کے شکن کے بیچ
وہ کرتا ہے جب زباں درازی حیرت سے ہم چپکے ہیں
کچھ بولا نہیں جاتا یعنی اس کے حرف و سخن کے بیچ
دشت بلا میں جا کر مریے اپنے نصیب جو سیدھے ہوں
واں کی خاک عنبر کی جاگہ رکھ دیں لوگ کفن کے بیچ
کبک کی جان مسافر ہووے دیکھے خرام ناز اس کا
نام نہیں لیتا ہے کوئی اس کا میرے وطن کے بیچ
کیا شیریں ہے حرف و حکایت حسرت ہم کو آتی ہے
ہائے زبان اپنی بھی ہووے یک دم اس کے دہن کے بیچ
غم و اندوہ عشقی سے ہر لحظہ نکلتی رہتی ہے
جان غلط کر میرؔ آئی ہے گویا تیرے بدن کے بیچ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *