ستم شریک ترا ناز ہے زمانے کا
ہمارے ضعف کی حالت سے دل قوی رکھیو
کہیں خیال نہیں یاں بحال آنے کا
تری ہی راہ میں مارے گئے سبھی آخر
سفر تو ہم کو ہے درپیش جی سے جانے کا
بسان شمع جو مجلس سے ہم گئے تو گئے
سراغ کیجو نہ پھر تو نشان پانے کا
چمن میں دیکھ نہیں سکتی ٹک کہ چبھتا ہے
جگر میں برق کے کانٹا مجھ آشیانے کا
ٹک آ تو تا سر بالیں نہ کر تعلل کیا
تجھے بھی شوخ یہی وقت ہے بہانے کا
سراہا ان نے ترا ہاتھ جن نے دیکھا زخم
شہید ہوں میں تری تیغ کے لگانے کا
شریف مکہ رہا ہے تمام عمر اے شیخ
یہ میرؔ اب جو گدا ہے شراب خانے کا