چمن کی صبح کوئی دم کو شام ہے صیاد
بہت ہیں ہاتھ ہی تیرے نہ کر قفس کی فکر
مرا تو کام انھیں میں تمام ہے صیاد
یہی گلوں کو تنک دیکھوں اتنی مہلت ہو
چمن میں اور تو کیا مجھ کو کام ہے صیاد
ابھی کہ وحشی ہے اس کشمکش کے بیچ ہے میرؔ
خدا ہی اس کا ہے جو تیرا رام ہے صیاد